(ایجنسیز)
یوکرین کے سیاسی بحران پر روس اور امریکا کے درمیان بات چیت کی مساعی کے باوجود سرد جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے خصوصی فرمان کے تحت روسی شہریوں کو امریکی ویزوں کی فراہمی روک دی گئی ہے جبکہ صدر اوباما جزیرہ نما کریمیا میں روسی فوج کی مداخلت کے بعد ماسکو پر اقتصادی پابندیوں کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما کے حکم کے تحت روسی شہریوں کو غیر معینہ مدت تک ویزوں کے اجراء پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ یہ اقدام روس کی جانب سے یوکرین میں مداخلت کرنے اور پڑوسی ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما کے حکم پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے روسی شہریوں کے لیے ویزوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ صدر نے ان تمام اہم روسی حکومتی شخصیات کے اثاثے منجمد کرنے اور ان پر اقتصادی پابندیوں پر بھی غور شروع کیا ہے جو یوکرین میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ویزوں پر پابندی اور
اقتصادی بائیکاٹ کے نتیجے میں یوکرینی شہر کریمیا میں فوجیں داخل کرنے والوں کو سزا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مزید سخت اقدامات بھی خارج از امکان نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ 22 فروری کو روس نواز یوکرینی صدر ویکٹر یانوکووچ کی عوامی احتجاج کے نتیجے میں صدراتی محل سے فرار کے بعد امریکا اور روس کے درمیان یوکرین کے مستقبل کے حوالے سے سخت اختلافات سامنے آئے تھے۔ دونوں ملک یوکرین میں اپنی من کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ روس نے اپنی سرحد سے متصل یوکرین کی مشرقی نیم خود مختار ریاست "کریمیا" میں فوج داخل کر دی ہے جہاں پہلے روسی فوج کا ایک بحری اڈہ بھی موجود ہے۔
امریکا اور روس کے درمیان یوکرین کے معاملے پر بات چیت کے ذریعے تنازع کے حل کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکا نے کھل کر یوکرین سے روسی فوج کی واپسی اور ملک میں عالمی مبصرین اور انسانی حقوق کے مندوبین کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے ماسکو سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر یوکرین کی نئی قیادت سے بات چیت شروع کرے ورنہ اسے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔